• مین اُدووال روڈ، اُدووال کلاں، گجرات، پنجاب، پاکستان
  • پیر تا ہفتہ 8:00 - 5:00
ہمیں فالو کریں:

تسنیم ہاشمی سیفی

تسنیم ہاشمی سیفی

شیختہ الحدیث/ پرنسپل
رابطہ کی تفصیلات
  • +923338417176
  • مرکزی جامعہ صفیہ رحمانیہ للبنات الاسلام بادشاہی روڈ ادھووال کلان گجرات
مہارت کے کورسز
  • شرعی قوانین
  • تاریخ اسلام
  • جدید دور کی ضرورت
  • آرگنائزنگ ہیلپ
  • شیختہ الحدیث
الصلوۃ والسلام و علیک یا رسول اللہ ٗ وعلٰی اٰلِک واصحابک یا حبیب اللہ
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

پرنسپل کا پیغام

مستحکم نظریہ ء حیات اور نظریہ تعلیم ہی ہمیں مستحسن  نتائج دے سکتا  ہے۔ انسان کے رویے اور سوچ کی تبدیلی علم کی تاثیر کو تبدیل کر دیتی ہے،  پھت وہی علم بعض کے لئے نافع اور بعض کے لئے غیر نافع بن جاتا ہے۔ ورنہ علم کا مقامِ ارفع تو نبی پاک ﷺ کی اس مبارک دعا سے ہی واضح ہو رہا ہے:

 رَبِّ زِدنِی عِلمَا (طحہ114)

  اے میرے پروردگار میرے علم میں اضافہ فرما۔

اور یہ بھی  عرض کی  اے اللہ میں تجھ سے ایسے علم کی پناہ مانگتا ہوں جو نفع مند نہیں۔ اور امت کو علم کی فضیلت یوں ارشاد فرمائی۔

طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ومسلمۃ

اور قرآن کریم یوں ارشاد فرمایا۔

   فاسئلواھل الذکر ان کنتم لاتعلمون:

 اگر تمیں علم نہیں تو اہل علم سے پوچھو۔

اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس میں بقدر ضرورت علم حاصل کرنا، مرد و عورت کے لئے فرض قرار دیا گیا ہے۔ علم وہ فرض ہے جو معرفت خداوندی عطا کرتا ہے، جس سے اسلام کے حوالے سے  اور دوسری اقوام کے حوالے سے ہمارا وِژن  (vision)کلئیر (clear) ہو جائے، جس کے ذریعے حلال، حرام، جائز، مکروہ اور مستحب وغیرہ کے بارے میں ہمیں مستند معلومات حاصل ہوں، اور ایسا یقین نصیب ہو کہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال بتانے کی گنجائش تلاش نہ کرناپڑے،  جائز کو جائز اور ناجائز کو ناجائز ہی رہنے دیا جایائے۔

اسلام چاہتا یہ ہے کہ انسان برے اور بھلے میں تمیز کرے،کیونکہ بغیر تمیز کے برائی ختم نہیں ہو گی۔ برے کاموں سے نفرت  اور اچھے کاموں کی رغبت ہر مسلما ن کے لئے لازم ہے اسی لئے مرد وعورت دونوں پر برابر علم حاصل کرنا فرض قراردیا گیا ہے۔ تاکہ وہ معاشرے میں اعمالِ حسنہ بجا لائیں اور ایک دلکش، خوبصورت،  پُر امن اور با اخلاق معاشرہ تشکیل پاسکے۔آج کا انسان اچھی بہو تو تلاش کرتا ہے، مگر بیٹی کے لئے اچھی تربیت کا انتظام نہیں کرتا۔ وہ یہ نہیں سوچتا کہ میری بیٹی بھی کسی کی بہو بنے گی۔ آج کا انسان معاشرے میں طارق بن زیاد، محمد بن قاسم، صلاح الدین  ایوبی اور سلطان محمود غزنوی جیسے جرنیل اور مدبّر تو تلاش کرتا ہے، غزالی، رومی اور اقبال جیسے مفکّرین تو دیکھنا چاہتا ہے، غوث الاعظم، خواجہ ء خواجگان، مجددالف ثانی اور داتا علی ہجویری جیسی جلیل القدر شخصیات کی برکات تو چاہتا ہے مگر یہ کبھی نہیں سوچتا کہ وہ مائیں جن کی گودوں سے یہ شہکار تیار ہوئے وہ مائیں کیسی عظیم المرتب، صاحبِ شعور  اور صاحبِ تقویٰ تھیں۔ یہی وقت ہے سوچ کر اٹھنے کااور سوچ کو عملی جامہ پہنانے کا، کہ صالح باکردار، پرہیزگاراور متقی مائیں پیدا کی جائیں، ایسا نہ ہو کہ تاخیر ہو جائے اور آنیوالی نسلیں اپنا تشخص کھو بیٹھیں ابھی وقت ہے کہ ہم اپنی نسلِ نو کو سیّدۂ کائنات کے در پر پہنچ کر اقبال کا یہ سبق پڑھا دیں۔

                 اگر پند  ز  درویشے   پذیری              ہزا امّت   بمیرد  تو  نہ میری

            بتولے باش و پنہاں  شوازیں عصر         کہ در آغوش  شبیرے  بگیری

ترجمہ :   اگر تو ایک درویش کی نصیحت قبول کر لے تو ہزاروں اُمتیں فنا ہو سکتی ہیں مگر اے عورت تو ہمیشہ رہے گی۔ حضر ت فاطمہ بتول ؓ کا شیوہ اختیار کر اور زمانے کی نگاہوں سے چھپ جا۔ تاکہ آغوش میں شبیر جیسا فرزند پرورش پا سکیں۔

اسی طرح کسی عربی شاعر کی نصیحت پر عمل بھی ممکن ہو جائے گا۔

                                الام مدرسۃ اذا ھذبتھا                   اعددت  شعبا طیب الاعراق

ترجمہ: ماں ایک درسگاہ ہے جب تو نے اسے تیارکر دیا تو،  تو نے پاکیزہ رگوں ولی قوم تیار کر دی۔

مولاى صلِّ و سلم دائما أبدا

على حبيبك خير الخلق كلهم.

Ⓡ MJSRG © 2022 - All rights reserved. Develop by Laiba Shafi